فی زمانہ ہر شخص ڈپریشن اور ٹینشن کا رونا روتا ہے۔ ٹینشن کیا ہے؟ کبھی کسی نے سوچا کہ آج سے تقریباً بیس برس قبل تک اس بیماری کا نام و نشان بھی موجود نہ تھا پھر چند سالوں میں کیوں یہ بیماری اتنی عام ہوگئی ۔ تقریباً ہر قوم کے لوگ اس کا شکار ہیں۔ ہر انسان کا اپنا ایک نقطہ ¿ نظر ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کے زاویے سے سوچتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ مادی آسائشوں اور زندگی کی ضروریات (تعیش جسے ہم نے ضرورتوں کا نام دے رکھا ہے) کے پیچھے بھاگنا اور حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر پیسہ بنانے کی دوڑ میں شامل ہونے اور ہر ذریعہ استعمال کرنے کے بعد بھی ”گوہر مقصود“ حاصل نہ کر سکنے کو لوگوں نے ڈپریشن اور ٹینشن کا نام دے دیا ہے۔ فی زمانہ ہر شخص مادی چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں وہ جن پستیوں میں گر رہا ہے اس کا اسے احساس تک نہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے لیکن نیک کاموں میں اور خدمتِ خلق میں اور آج ہم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی تو ہیں مگر کہاںجارہے ہیں؟ سوچیں سب کی انفرادی سوچ ہے۔ ہر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے۔ بھولے سے بھی کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کسی کے بھلے کے بارے میں سوچ لے۔ بیشک دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کے بھلے اور ان کی خدمت کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کے دم سے ہی دنیا آباد ہے مگر جب بات اجتماعی سوچ کی آتی ہے تو لوگوں کے رویے‘ حاسدانہ خیالات اور دوسروں کے بارے میں برا چاہنا ہی ہمارا شیوہ بن گیاہے۔ میری کلاس فیلو تھی اس کے والد بہت بڑے عہدے پر تھے اور 40ہزار ان کی تنخواہ تھی گو کہ ان کی فیملی بھی بہت بڑی نہ تھی مگر پھر بھی وہ اور ان کی اہلیہ ہر وقت یہ واویلا مچائے رکھتے کہ گزارا نہیں ہوتا۔ یہ آج سے تقریباً آٹھ برس پہلے کی بات ہے۔ ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ ان کے گھر گئی تو آنٹی باتھ روم میں تھیں اور کوئی گھر پر نہ تھا۔ ان کے انتظار میں ان کی نوکرانی سے وقت گزاری کیلئے باتیں شروع کر دیں ۔میں اس وقت حیران رہ گئی جب اس نے کہا کہ ہم دونوں میاں بیوی مل کر مہینے کا پانچ ہزار کما لیتے ہیں۔ تین بچے ہیں، سکول میں پڑھتے ہیں۔ الحمدللہ گزارا ہو جاتا ہے۔ میں اس کا موازنہ اس کی مالکہ سے کرنے لگی اور سوچا کہ لوگوں کے ذہنوں میں کتنا تضاد ہے۔ حالانکہ یہ عورت بالکل ان پڑھ ہے مگر خدا پر توکل رکھے ہوئے ہے۔
آجکل جس کو دیکھو وہ روپیہ نہ ہونے یا بے برکتی کی شکایت کرتا ہے۔ میںپوری ایمانداری سے کہتی ہوں کہ حلال ذریعے سے کمایا جانے والا پیسہ اپنے اندر بے برکتی نہیں رکھتا۔ حرام ذریعے سے لاکھوں بھی کما لیے جائیں تو بھی ان کے خرچ ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔ قارئین! آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ذرا اپنے ذریعہ معاش کا طریقہ مدنظر رکھیں۔ حلال روزی کمائیں گے تو برکت ہوگی۔ آزمائش شرط ہے۔ خدا پر توکل کی بجائے دنیا داروں کی طرف متوجہ ہونا دوسری اہم وجہ ہے۔ یہ جو بے سکونی ہے اس کودور کرنے کیلئے نماز قائم کریں۔ میں کہتی ہوں کہ اگر آپ چالیس دن متواتر نماز ادا کر لیں تو پھر اس کے بعد کوئی رکاوٹ نہ ہوگی اور آپ خود بخود نمازی بن جائیں گے۔ دوسروں کو اگر کچھ دے نہیں سکتے تو ان کے بارے میں برا چاہنے اورسوچنے کی بھی ہمارے مذہب میں ممانعت ہے۔ اگر یہ لعنت ہم چھوڑ دیں تو ہمارا معاشرہ بہت سی برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ بات صرف سوچنے کی ہے مگر وقت ہی کم ملتا ہے دوسروں کے بارے میں سوچنے کا کیونکہ ہمیں خود سے ہی فرصت نہیں ہے۔ہم اپنی زندگی کو سہل بنانے کیلئے دوسروں کا حق مارنے ، حسد و انتقام کی آگ اور حرام کمائی حاصل کرنے کے نت نئے طریقے ایجادکر رہے ہیں۔کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ہم اللہ سے وعدہ کرکے آئے ہیں۔ ہمیں اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔ جب عزرائیل(علیہ السلام) آئیں گے تو کوئی عذر نہ سنیں گے۔ تب ہمیں یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہی ہو گا۔ یہ فانی دنیا چھوڑ کر اس ہمیشگی کی دنیا کی طرف۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے وہاں کیلئے اثاثہ اکٹھا کیا ہے ۔کیونکہ وہاں مال و دولت کام نہیں آئے گابلکہ صرف اپنے اعمال۔ اعمال میں نماز اور بدنی عبادتوں کے بعد رزقِ حلال کا نام سر فہرست ہے۔ آئیے مل کر عہد کریں کہ اللہ نے ہمیں جو مہلت دی ہے (اس میں سے بہت وقت گزر چکا جو باقی ہے) اس میں نیک اعمال کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل ہو جائے اور ابدی زندگی کیلئے بھی کچھ اثاثہ تیار ہو جائے تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ میں جب کوئی میت دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ یہ انسان کی اخیر ہے۔ خالی ہاتھ آنا اور خالی ہاتھ واپس چلے جانا سوائے اپنے نیک اعمال کے۔ مضمون کو اور طوالت نہیں دینا چاہتی بات ختم کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گی کہ ....
نزع کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن
ساری زندگی کا خلاصہ اسی اک آواز میں ہے
اس شعر کو دل کی آنکھوں سے پڑھیں گے تو ذہن کے درد د ور ہوتے چلے جائیں گے اور اگر کسی ایک بھی شخص نے ایسا کر لیا تومیں سمجھوں گی کہ میری تحریر کا مقصد پورا ہو گیا۔ اللہ آپ سب کو اور مجھے نیک اور صالحہ اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں